بھارت سے متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، اردن، اسرائیل اور یورپ تک ایک نئی راہداری کا بھارتی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والا نقشہ جعلی ثابت ہوا ہے۔ اس جعلسازی کی نشاندہی جنوبی ایشیا پرنظر رکھنے والے امریکی ماہر مائیکل کوگلمین نے کی۔ کوگلمین نے اس بات کی نشاندہی بھی کی ہے کہ بہت سے لوگ اس منصوبے کو غیرحقیقی قرار دے رہے ہیں۔
اس نئی راہداری کے لیے مفاہمتی یاداشت پر دستخط نئی دہلی میں جی 20 سربراہ اجلاس کے موقع پر ہوئے۔
بھارتی وزیراعظم اور یورپی یونین کی کمشنر نے اس کا اعلان کیا۔ سعودی عرب کی شمولیت کی بناء پر بھارتی میڈیا نے اس مجوزہ راہداری کو اپنے ملک کی بڑی کامیابی کے طور پر پیش کیا جب کہ مغربی ذرائع ابلاغ اسے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا جواب قرار دے رہے ہیں۔
اس راہداری کو انڈیا، مشرق وسطیٰ کوریڈور کا نام دیا جا رہا ہے۔ تاہم بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس اور دیگر ذرائع ابلاغ نے جو نقشہ شائع کیا ہے وہ جعلی ثابت ہو رہا ہے۔
بھارتی میڈیا میں شائع ہونے والے نقشوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کی ممبئی بندرگاہ سے متحدہ عرب امارات تک سمندری راستے سے سامان پہنچے گا۔
متحدہ عرب امارات سے تجارتی سامان زمینی راستے سے سعودی عرب سے ہوتا ہوا اردن اور پھر اسرائیل پہنچے گا۔
یہاں سے ایک بار پھر سمندری راستے سے سامان یونان پیرایوس پہنچایا جائے گا اور اس کے بعد یہ ریل نیٹ ورک کے ذریعے یورپ کے مختلف ممالک کو پہنچے گا۔
تاہم امریکی تجزیہ کار مائیکل کوگلمین کے مطابق یہ واضح نہیں ہے کہ مذکورہ نقشہ کہاں سے آیا کیونکہ مفاہمتی یاداشت میں پیرایوس/یونان کا کوئی ذکر نہیں۔ کوگلمین نے اس منصوبے کے حوالے سے وائٹ ہاؤس کی جاری کردہ فیکٹ شیٹ بھی شیئر کی جس میں مفاہتمی یاداشت کا مکمل متن موجود ہے۔
کوگل مین کی ایکس پوسٹ کے جواب میں ایک اور نقشہ ایک سوشل میڈیا صارف نے شیئر کیا جس پر تبصرہ کرتے ہوئے کوگلمین نے کہا کہ یہ پہلے والے سے کافی مختلف ہے۔
کوگلمین کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کے حوالے سے نقشے پر انہیں شکوک ہیں کیونکہ اس میں جو کچھ دکھایا گیا ہے وہ سرکاری دستاویزات سے مطابقت نہیں رکھتا۔
امریکی ماہر کی ایکس پوسٹ کے جوابات ایک بحث کی شکل اختیار کرگئے۔ اس دوران برطانوی تجزیہ کار جان کنیسن کا کہنا تھا کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ بھارت مشرق وسطی راہدری نہر سوئز کا بہتر متبادل کیسے ثابت ہوگی، سمندر سے ریل پر منتقل ہونے سے افادیت میں اضافہ نہیں ہوسکتا۔
یاد رہے کہ بھارت مشرق وسطی راہدری کے حامیوں کا دعوی ہے کہ اس کے نتیجے میں بھارتی سامان تجارت 40 فیصد تیزی سے یورپ پہنچ سکے گا اور نہر سوئز والے راستے کا ایک بہتر متبادل بھی میسر ہوجائے گا۔
جان کینسن کو جواب دیتے ہوئے مائیکل کوگلمین نے کہاکہ وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں، اس منصوبے کے حوالے سے ابتدائی تنقید یہی ہے کہ یہ غیرحقیقی ہے جس کا ایک سبب یہ ہے کہ ایک ایسے نقشے پر انحصار کیا جا رہا ہے جو جیوگرافی کی درست طور پر عکاسی نہیں کرتا۔
اس دوران سوشل میڈیا صارفین نے دو برس پرانی ایک ٹویٹ بھی شیئر کی جس میں ایک پروفیسر نے مذکورہ راہدری کا خیال پیش کیا تھا۔
اس پر گوکلمین نے کہا کہ یہ ایک اسکالر کے دو برس پرانے ریسرچ پروجیکٹ کا حصہ ہے۔
بظاہر بھارتی میڈیا نے نقشہ یہیں سے اٹھایا۔
بھارت کے کھوکھلء دعوئوں کا بڑا سبب یہ ہے کہ انڈیا مشرق وسطی کوریڈور کے ابتدائی خدوخال بھی ابھی واضح نہیں اور حکام کا کہنا ہے کہ ایک ورکنگ گروپ اس حوالے سے تفصیلات 60 دن میں طے کرے گا۔
ابھی تک یہ معلوم نہیں کہ منصوبے کے تحت کہاں کہاں تعمیرات ہوں گی۔ صرف تین صفحات کی ایک مفاہمتی یاداشت واحد سرکاری دستاویز ہے جس میں منصوبے کی اب تک دستیاب تفصیلات پہلے صفحے پر موجود ہیں۔
مفاہمتی یاداشت میں بھارت، سعودی عرب، فرانس، متحدہ عرب امارات، فرانس، جرمنی، اٹلی اور امریکہ کو اس منصوبے کا شراکت کار بتایا گیا ہے۔ یونان کا اس میں کوئی ذکر نہیں جب کہ امریکا اس میں موجود ہے حالانکہ راہدری امریکا تک نہیں جائے گی۔
مفاہمتی یاداشت میں بھارت سے مشرق وسطی تک کے سمندری سفر کو مشرقی کوریڈور میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ وہی راستہ ہے جس پر معمول کی تجارت اب بھی ہوتی ہے۔ اس کے بعد متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سے لے کر اسرائیل تک کے راستے کو بھی مشرقی کوریڈور میں شامل کیا گیا ہے۔ یہاں پر ریل نیٹ ورک قائم ہونا ہے۔
اسرائیل سے آگے کے سمندری راستے کو مغربی کوریڈور قرار دیا جا رہا ہے۔ اس راستے سے تجارت پہلے بھی ہوتی ہے۔
ہر برس ہونے والی کانفرنس
دریں اثناء بھارت میں ہونے والی جی 20 کانفرنس کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے پر سابق پاکستانی سفیر عبدالباسط نے ایک اہم پہلو کی جانب توجہ دلائی ۔
عبدالباسط نے کہا کہ جی 20 کانفرنس ہر برس ہوتی ہے۔ گذشتہ برس یہ انڈونیشیا کے شہر مالی میں ہوئی تھی، اس مرتبہ یہ دہلی میں ہوئی اور اگلے برس جی 20 کے نئے صدر ملک برازیل کے یہاں ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ آنے والے برسوں میں جی 20 اپنی اہمیت کھو دے گی جب کہ بھارت سے خلیج اور یورپ تک راہدری کا منصوبہ خام خیالی ہی رہے گا۔