ریکوزیشن پر سینیٹ اجلاس بلانے کے معاملے پر سینیٹ سیکرٹریٹ نے سینیٹر تاج حیدر کو جوابی خط ارسال کردیا، جس میں واضح کیا گیا کہ 5 اراکین کی دستبرداری کے بعد ریکوزیشن پر 28 اراکان کے دستخط نہیں، جس کے بعد ریکوزیشن بے اثرہوگئی۔
سینیٹ سیکرٹریٹ نے سینیٹر تاج حیدر کے نام جوابی خط لکھ دیا، جس کے مطابق سینیٹ اجلاس ریکوزیشن سے 5 ممبران تحریری طور پر دستبردار ہوئے، تحریری دستبرداری کے بعد ریکوزیشن ازخود بے کار ہوگئی۔
خط کے متن کے مطابق آئین کے آرٹیکل (54)3 سینیٹ اجلاس کی ریکوزیشن کے لیے 28اراکین کے دستخط لازم ہے، 5 اراکین کی دستبرداری کے بعد ریکوزیشن پر 28 اراکان کے دستخط نہیں رہے، اراکین کی دستبرداری کے بعد ریکوزیشن بے اثر ہوگئی۔
خط متن میں واضح کیا گیا کہ سینیٹ اجلاس بلانے کے لیے آرٹیکل (54)3 کے تحت نئی ریکوزیشن جمع کرائی جاسکتی ہے۔
سینیٹر تاج حیدر کا سینیٹ کا اجلاس بلانے کا مطالبہ
اس سے قبل پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر تاج حیدر نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی سے سینیٹ کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کردیا۔
پیپلزپارٹی نے چیئرمین سینیٹ کو ریکوزیشن مسترد کرنے کے معاملے پر خط لکھ دیا، خط سینیٹر تاج حیدر کی جانب سے لکھا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے سینیٹ سیکرٹریٹ نے فون پربتایا کہ ریکوزیشن سے 5 اراکین نے اپنے دستخط واپس لیے ہیں لیکن سینیٹ سیکرٹریٹ سے ان 5 اراکین کے نام پوچھے جو ہمیں نہیں بتائے گئے۔
خط میں سوالات اٹھائے گئے ہیں کہ کیا اراکین نے دستخط واپس لینے کے لیے تحریری طور پر سینیٹ سیکرٹریٹ کو لکھا؟ کیا سینیٹ سیکرٹریٹ نے ان اراکین سے تحریری طور پر دستخط واپس لینے کا کہا؟ چیئرمین سینیٹ یا سینیٹ سیکرٹریٹ فیصلہ کنندہ کا کردار کیسے ادا کر سکتا ہے؟۔
خط میں لکھا گیا ہے کہ آئین چیئرمین سینیٹ آفس کو فیصلہ کنندہ ہونے کا اختیار نہیں دیتا، چیئرمین سینیٹ کا دستخط واپس لینے میں کوئی کردار نہیں، ریکوزیشن مسترد کرنے کے فیصلے پرنظرثانی کریں گے اورعوام کے مفاد میں آپ سینیٹ کا اجلاس بلائیں گے۔