ٹیکس چوری کے حوالے سے جاری کی جانے والے ”گلوبل ٹیکس کمیشن رپورٹ“ میں کہا گیا ہے کہ آف شور اکاؤنٹس میں پاکستانیوں کے 19 ارب 20 کروڑ ڈالرز موجود ہیں، اور اس میں آدھی سے زیادہ رقم سے دبئی میں رئیل اسٹیٹ کے اندر سرمایہ کاری کی گئی ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے پانامہ لیکس کے بعد پاکستانیوں نے بڑی تعداد می سوئس بینک سے اپنی رقم منتقل کی ہے۔
اس حوالے سے ماہر مالیاتی امور ڈاکٹر اکرام الحق کا کہنا ہے کہ بینفیشل آف شور کا جو قانون بنایا گیا وہ پاکستان میں بھی نافذ کیا گیا کہ اگر آپ کا باہر کسی بھی کمپنی میں کوئی بھی بینیفیشل انٹرسٹ ہے چاہے وہ ٹرسٹ کی شکل میں ہو یا آف شور کمپنی کی صورت میں تو آپ اس کو ڈکلئیر کردیں، اس کی حد رکھی گئی تھی کہ 10 فیصد بھی آپ کا انٹرسٹ ہے تو آپ کو اسے سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن اور انکم ٹیکس کے ریٹرن میں ڈکلئیر کرنا ہوگا۔
آج نیوز کے پروگرام ”دس“ میں گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر اکرام الحق نے ”گلوبل ٹیکس کمیشن رپورٹ“ کے حوالے سے کہا کہ کیونکہ یہ رپورٹ پرانی ہے تو اس میں جو اعداد بتائے گئے ہیں وہ کم ہیں، اس میں کافی اضافہ ہوسکتا ہے۔ ’پاکستانیوں کی صرف ڈکلئیرڈ رقم ہی اس سے زیادہ ہے، اسٹینڈنگ کمیٹی کے سامنے جو بیان دیا گیا تھا اس وقت کے چئیرمین صاحب نے، وہ یہی تھا کہ 74 ارب کے اثاثے ڈالرز کی صورت میں وائٹ ہوئے ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’120 بلین ڈالرز کا تو اندازہ رکھیے کہ اتنے مختلف شکلوں میں باہر ہیں‘۔
ڈاکٹر اکرام الحق نے کہا کہ ہمیں ابھی ورجن آئی لینڈ کے بارے میں تو پتا بھی نہیں ہے، کیونکہ ’یکم جنوری 2024 سے دنیا میں ایک نیا قانون نافذ ہوگا جس میں ان ٹیکس ہیونز کا ڈیٹا ملنے کا امکان ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ پانامہ لیکس میں جن 475 لوگوں کے نام آئے تھے انہوں نے 2018-19 میں ایمنسٹیز کے زریعے سب وائٹ کرلیا، یہ بہت افسوسناک بات تھی کہ ایک فرد واحد کو نشانہ بنایا گیا اور باقی سب کو ایمنسٹی دے دی گئی۔ ان کو بھی ایمنسٹی دے دیتے۔
انہوں نے کہا کہ ابھی ڈیڈ لائن رکھی گئی ہے کہ جو ٹیکس ہیونز ہیں وہاں چاہے آپ کا کوئی ٹرسٹ ہو یا کمپنی انہیں بینیفیشل اونرز کے نام دینے پڑیں گے اور کسی کو بھی یہ ڈیٹا لینے کا حق حاصل ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سے بہت بڑی کھلبلی مچے گی، جنوری میں پانامہ سے بہت بڑا اسکینڈل آںے کو تیار ہے۔