پیر, دسمبر 23, 2024
3:46 صبح
پیر 22-6-1446

Stay Connected

0مداحپسند
0فالورزفالور
3فالورزفالور
4,440سبسکرائبرزسبسکرائب کریں

Latest posts

ہومکاروباروزارت اقتصادی امور نے عالمی بینک سے پاکستان کے قرض منسوخی کی...

وزارت اقتصادی امور نے عالمی بینک سے پاکستان کے قرض منسوخی کی خبروں کی تردید کردی – Business & Economy

پاکستان کے مقامی میڈیا نے گزشتہ روز دعویٰ کیا تھا کہ عالمی بینک کی جانب سے پاکستان کو دیا جانے والا 500 ملین ڈالر کا قرض منسوخ کر دیا گیا ہے، تاہم وزارت اقتصادی امور نے اس خبر پر وضاحتی بیان جاری کرتے ہوئے اس کی تردید کردی ہے۔

گزشتہ روز ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ورلڈ بینک نے 500 ملین ڈالر سے زائد کا بجٹ سپورٹ قرض اس بنا پر منسوخ کیا کہ اسلام آباد کی جانب سے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے بجلی کی خریداری کے معاہدوں پر نظر ثانی سمیت کچھ اہم شرائط پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔

رپورٹ کے مطابق بجٹ سپورٹ لون نہ دینے کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھہ کہ پاکستان نے اپنا کوٹہ بڑی حد تک ختم کر دیا ہے۔

رپورٹ میں حکومتی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا کہ عالمی بینک نے 500 سے 600 ملین ڈالر کا قرضہ منسوخ کر دیا جس کا مقصد پاکستان کو سستی اور صاف توانائی فراہم کرنا تھا۔ ابتدائی طور پر یہ قرضہ 500 ملین ڈالر تھا لیکن عالمی بینک نے اسے بڑھا کر 600 ملین ڈالر کرنے پر غور کیا تھا، اسے PACE-II بھی کہا جاتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق جون 2021 میں ورلڈ بینک نے پاکستان کو توانائی کے حوالے سے مدد کرنے کے پروگرام کی منظوری دی اور ملک کو 400 ملین ڈالر کی پہلی قسط فراہم کی تھی۔ تاہم بینک کے پاس مزید رقم دینے کی شرائط تھیں، ان شرائط میں سی پیک کے تحت چینی پاور پلانٹس کے سیٹ اپ سمیت تمام آزاد پاور پروڈیوسرز (IPPs) کے ساتھ مذاکرات کرنا بھی شامل تھا۔ پاکستانی حکام کے مطابق سی پیک پاور پلانٹس کے ساتھ دوبارہ مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔

وزیرخزانہ کی آئی ایم ایف کو معاشی استحکام کے تسلسل کیلئے اصلاحات کا عمل جاری رکھنے کی یقین دہانی

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان نے چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے تحت بنائے گئے چینی پاور پلانٹس کے ساتھ معاہدوں پر دوبارہ بات چیت کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ کسی معاہدے تک نہیں پہنچ سکے۔ چین نے ان معاہدوں پر نظرثانی کرنے سے انکار کر دیا، جس میں تقریباً 16 بلین ڈالر کے توانائی کے قرض کی تنظیم نو کرنا بھی شامل ہے۔

حکومت پاور پلانٹس کے ساتھ معاہدوں پر دوبارہ بات چیت کرکے بجلی کی قیمتیں کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس میں سن 1994، 2002 اور 2015 میں لگائے گئے پلانٹس شامل ہیں، جن میں کچھ حکومت کی ملکیت ہیں اور کچھ چینی پاور پلانٹس بھی شامل ہیں۔

احتجاج سے ملک کو روزانہ 190 ارب کا نقصان ہوتا ہے، وزیر خزانہ

حکومت نے اب تک توانائی کے 22 معاہدوں پر بات چیت کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا لیکن بجلی کی قیمت میں فی یونٹ کمی کے لحاظ سے کوئی بڑی بچت نہ ہوئی۔ بجلی کی قیمت ٹیکسوں اور سرچارجز کو شامل کرکے اب بھی 65 سے 70 روپے کے درمیان ہے۔

حکومت بھاری بجلی استعمال کرنے والوں سے 16 روپے فی یونٹ تک کی اضافی فیس کو ختم کرنے میں تذبذب کا شکار ہے۔ یہ فیس ان لوگوں کے لیے بجلی کی قیمت کو کم کرنے میں مدد کرتی ہے جو ماہانہ 200 یونٹ سے کم استعمال کرتے ہیں۔

اگر حکومت اس اضافی فیس سے چھٹکارا حاصل کر لیتی ہے، تو یہ کمرشل بجلی صارفین اور کاروباری اداروں پر مالی بوجھ کو بہت حد تک کم کر سکتی ہے۔

Related articles