اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے شرح سود میں 2 فیصد کمی کردی، جس کے بعد ملک کی شرح سود 15 فیصد سے کم ہوکر 13 فیصد پر آگئی۔
تفصیلات کے مطابق پیر کے روز گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد کی زیر صدارت مانیٹری پالیسی کے حوالے سے اجلاس ہوا جس میں شرح سود میں 2 فیصد کمی کردی گئی۔
اسٹیٹ بینک کے فیصلے کے بعد شرح سود 15 سے کم ہو کر 13 فیصد پر آگئی ہے۔
مرکزی بینک کی جانب سے اجلاس کے بعد جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ اجلاس کے دوران ملک کی مائیکرو اور میکرو اکنامک صورتحال اور مقامی سمیت بین الاقوامی معاشی اشاریوں کا جائزہ لیا گیا۔
اعلامیہ کے مطابق روپیہ مستحکم ، کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس اور ترسیلات زر میں اضافہ ہوا ہے اور مہنگائی کنٹرول اور زرمبادلہ ذخائر بڑھ رہے ہیں، نومبر میں افراط زر کی شرح 6 سال کی کم ترین سطح 4.9 فیصد پرآگئی ہے۔
خیال رہے کہ شرح سود میں مسلسل پانچویں مرتبہ کمی کی گئی ہے جبکہ 5 بار میں 9 فیصد کمی ہوئی۔
یاد رہے کہ تاجر تنظیموں نے شرح سود میں 3 سے 5 فیصد تک کمی کا مطالبہ کیا تھا۔
ماہرین کا ردعمل
دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ رئیل انٹرسٹ ریٹ 10 فیصد پازیٹو ہوگیا تھا ، اسٹیٹ بینک شرح سود میں مزید کمی کی پوزیشن میں تھا۔
ماہرین کے مطابق روپیہ مستحکم اور ملکی زرمبادلہ ذخائر 32 ماہ کی بلند ترین سطح پر ہیں۔
وزیراعظم کا اسٹیٹ بینک کی جانب سے پالیسی ریٹ میں 2 فیصد کمی کا خیر مقدم
دوسری جانب وزیر اعظم شہباز شریف نے اسٹیٹ بینک کی جانب سے پالیسی ریٹ میں 2 فیصد کمی کا خیر مقدم کیا ہے۔
اپنے خصوصی بیان میں وزیراعظم نے کہا ہے کہ پالیسی ریٹ کا 13 فیصد پرآنا ملکی معیشت کے لئے خوش آئند ہے، پالیسی ریٹ میں کمی سے پاکستانی معیشت پر سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھے گا، پالیسی ریٹ میں کمی سے سرمایہ کاری میں اضافہ ہو گا۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ کم افراط زر کی شرح کی بدولت پالیسی ریٹ میں کمی آئی ہے، امید کرتے ہیں کہ آنے والے مہینوں میں افراط زر میں مزید کمی ہو گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ معیشت کی بحالی کے حوالے سے وفاقی وزیر خزانہ اور دیگر متعلقہ اداروں کی کوششیں لائق تحسین ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ اسٹیٹ بینک نے شرح سود 250 بیسس پوائنٹس کم کی تھی جس کے بعد وہ 15 فیصد پر آگئی تھی۔
ایس آئی ایف سی کی معاونت سے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ
اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ زری پالیسی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا، جس نے بنیادی پالیسی ریٹ 250 بیسس پوائنٹس کم کرکے 15 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جو 5 نومبر 2024 سے نافذ العمل ہوگا۔
بیان کے مطابق کمیٹی نے نوٹ کیا تھا کہ مہنگائی توقع سے زیادہ تیزی سے نیچے آئی ہے اور اکتوبر میں اپنے درمیانی مدت کے ہدف کی حد کے قریب پہنچ گئی ہے۔
مزید روشنی ڈالی گئی تھی کہ غذائی مہنگائی میں تیزرفتار تنزلی، عالمی سطح پر تیل کی موافق قیمتیں، متوقع گیس ٹیرف اور پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی کو ایڈجسٹ نہیں کی گئیں، جس کے نتیجے میں مہنگائی کم ہوئی۔
اسٹاک مارکیٹ میں نیا ریکارڈ قائم، انڈیکس 1 لاکھ 15 ہزار کی بلند ترین سطح کو چھو گیا
مزید کہا گیا تھا کہ زری پالیسی کمیٹی اب یہ توقع کرتی ہے کہ مالی سال 2024 کے لیے اوسط مہنگائی پچھلی پیش گوئی کی حد 11.5 سے 13.5 فیصد سے نمایاں طور پر کم رہے گی۔
مزید بتایا گیا تھا کہ کمیٹی کا یہ تجزیہ بھی تھا کہ یہ منظرنامہ مشرق وسطیٰ کے تنازع میں کشدگی، غذائی مہنگائی کے دباؤ کے دوبارہ ابھرنے، سرکاری قیمتوں میں ایڈہاک ردو بدل اور محصولات کی وصولی میں کمی کو پورا کرنے کے لیے ہنگامی ٹیکس اقدامات کے نفاذ جیسے خطرات سے مشروط ہے۔
زیادہ تر ماہرین نے خیال ظاہر کیا تھا کہ مرکزی بینک 200 بیسس پوائنٹس کی کمی کرے گا، شرح سود میں جون کے بعد مسلسل چوتھی کٹوتی ہے، جس کی بنیادی وجہ مہنگائی میں کمی، کم کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور زیادہ ترسیلاتِ زر کا ہونا ہے۔
واضح رہے کہ اکتوبر میں سالانہ بنیادوں پر مہنگائی کی شرح 7.17 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی، جبکہ ستمبر میں سالانہ بنیادوں پر مہنگائی بڑھنے کی رفتار 6.9 فیصد کے ساتھ 44 ماہ کی کم ترین سطح پر آگئی تھی۔
یاد رہے کہ 10 جون 2024 کو اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں 4 سال بعد کمی کا اعلان کرتے ہوئے اسے 1.5 فیصد کم کرنے کا اعلان کردیا تھا، جس کے بعد بنیادی شرح سود 22 سے کم ہوکر 20.5 فیصد پر آگئی تھی۔
بعد ازاں، 29 جولائی کو کراچی میں گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے مانیٹری پالیسی کے حوالے سے پریس بریفنگ دیتے ہوئے شرح سود 20.5 فیصد سے کم کرکے 19.5 فیصد کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اس سے بعد 12 ستمبر کو اسٹیٹ بینک نے نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے بنیادی شرح سود میں 200 بیسس پوائنٹس کی کمی کر کے 17.5 فیصد مقرر کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔