ملک بھر میں جاری احتجاج کے پیش نظر آج (27 اگست بروز اتوار) نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی زیر صدارت ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا، جس میں اس بات پر غور کیا گیا کہ لوگ بجلی کے بلوں سے اتنے تنگ کیوں ہیں اور اسے ٹھیک کرنے کے لیے کیا کِیا جا سکتا ہے۔
اجلاس میں وزیراعظم کو بتایا گیا کہ سرکاری افسران کے لیے مفت بجلی کا روایت ختم کی جارہی ہے اور 60 فیصد سے زائد صارفین بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے متاثر نہیں ہوئے۔
لیکن اسی اجلاس میں ایک خطرناک انکشاف بھی ہوا۔
پاور ڈویژن کے حکام نے نگراں وزیر اعظم کو بتایا کہ کیپیسٹی چارجز کی مد میں اگلے سال 2 ٹریلین روپے (2000 ارب روپے) کی ادائیگیاں کی جانی ہیں۔
یعنی صارفین سے اس بجلی کے لیے بھی پیسے بٹورے جاتے رہیں گے جو انہوں نے کبھی استعمال ہی نہیں کی۔
تو یہ کیپیسٹی چارجز کیا ہیں؟
طلب اور رسد کے درمیان نہ ختم ہونے والا فرق پاکستان میں توانائی کے مسائل کی جڑ ہے، جس کی وجہ سے حکومتوں نے فیصلہ کیا کہ ملک میں مزید بجلی کی ضرورت ہے۔ اس لیے انہوں نے ملک بھر میں بجلی کے بہت سے نئے پلانٹس لگائے، جن میں سے بہت سے انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) تھے۔
یہ پاور پلانٹس بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرتے ہیں، اور ان کو لگانے والے اس بات کی ضمانت چاہتے ہیں کہ وہ اپنا پیسہ ایسی جگہ لگا رہے ہیں جہاں سے انہیں منافع حاصل ہو۔
اس لیے انہوں نے حکومت کے ساتھ بجلی خریداری کے معاہدے کیے تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ انہیں کس طرح معاوضہ دیا جائے گا۔
معاہدوں میں طے پایا کہ کیپیسیٹی پے منٹس زمین کی خریداری، ڈیزائن، تنصیب، ٹیکس، انشورنس، انتظامیہ، قرض خدمات اور ایکویٹی پر واپسی کے اخراجات کی قیمت پر مبنی ہوگی۔
اب اس سارے عمل کا زبردست (یا کہیں کہ پریشان کن) حصہ یہ ہے کہ معاہدوں کو ان چیزوں کے خلاف طے کیا جاتا ہے جو اتار چڑھاؤ کا شکار ہوتی ہیں بشمول شرح تبادلہ اور شرح سود۔
مزید پڑھیں
بجلی پر احتجاج کہیں فسادات میں نہ بدل جائے، خالد
مقبولبجلی بلوں کیخلاف مظاہروں پر پاور ڈویژن نے جوابی حکمت عملی بنا
لیبجلی کمپنیوں کے افسران کے برائے نام بلز پر لوگ سوالات اٹھانے
لگے
لیکن جیسا کہ پاکستان میں ہوتا آیا ہے، حکومتی فیصلہ سازوں نے ضرورت سے زیادہ دماغ چلایا اور فائدے کو نقصان میں بدل دیا۔
آئیڈیا تو یہ تھا کہ بجلی کی ضرورت سے زیادہ فراہمی ہونی چاہیے۔ لیکن فیصلہ ساز یہ بھول گئے کہ اس زائد بجلی کی ترسیل کے لیے گنجائش بھی اتنی ہی ہونی چاہیے۔
نتیجہ یہ نکلا کہ اب پاکستان میں ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت تو ہے، لیکن اس بجلی کو صارفین تک پہنچانے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔
اس لیے، پلانٹس کیلئے کیپیسٹی چارجز عائد ہیں اور حکومت کو انہیں ادا بھی کرنے پڑتے ہیں۔
آسان الفاظ میں سمجھیں تو اگر ایک آئی پی پی کے پاس 100 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے اور وہ ٹرانسمیشن کی رکاوٹوں کی وجہ سے صرف 60 میگاواٹ پیدا کرتا ہے، تب بھی اسے پورے 100 میگاواٹ کی ادائیگی ہوگی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف اس لیے کہ ایک معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے، ایسے پلانٹ موجود ہیں جو بہت زیادہ بجلی پیدا کر سکتے ہیں۔
اگرچہ صارفین کو بجلی کی ضرورت تو ہے لیکن وہ اسے کبھی حاصل نہیں کرپائیں گے، کیونکہ اس کی تمام ترسیل کے لیے کافی نظام موجود نہیں ہے۔
اب چونکہ پلانٹ میں زائد بجلی بنانے کی صلاحیت ہے تو اس لیے صارفین کو ان کی ادائیگی بھی کرتی رہنا پڑے گا۔
اور کیونکہ زر مبادلہ اور شرح سود میں اضافہ ہوتا رہتا ہے، اس لیے صارفین ان کیپیسیٹی چارجز کی مد میں زیادہ سے زیادہ ادائیگی کریں گے۔ لیکن بجلی آپ کو پھر بھی نہیں ملے گی۔
دسمبر 2022 کے تخمینے کے مطابق کیپیسٹی چارجز 8 روپے فی کلو واٹ گھنٹہ یا یونٹ پر تھے۔ اس کے بعد شرح سود میں اضافہ ہوا ہے اور روپے کی قدر میں کمی واقع ہوئی ۔
2018 میں پاکستان نے کیپسٹی چارجز کی مد میں 500 ملین روپے ادا کیے اور اس کے بعد سے یہ رقم مسلسل بڑھ رہی ہے۔
اسی لیے جیسا کہ نگراں وزیر اعظم کو بتایا گیا، ملک اگلے سال 2,000 ارب روپے ادا کرے گا۔