سانحہ جڑانوالہ پر جوڈیشل انکوائری کے لیے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کر دی گئی۔
لاہور ہائیکورٹ میں درخواست گریس بائبل فیلوشپ چرچ پاکستان نے دائر کی، جس میں چیف سیکرٹری، ہوم سیکرٹری، آئی جی پنجاب اور فیصل آباد کے پولیس افسران کو فریق بنایا گیا ہے۔
مزید پڑھیں
راولپنڈی: کرسچن کالونی میں گھر جلانے کی افواہ، راتوں رات بستی خالی
ہوگئیجڑانوالہ واقعہ: پنجاب حکومت نے مقدمات کی تفتیش کیلئے 10 جے آئی ٹی
تشکیل دے دیںسانحہ جڑانوالہ: مزید 11 مقدمات درج، مرکزی ملزمان کا محلےدار
گرفتار
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ بد قسمتی سے 16 اگست کو غیر حقیقی، جعلی اور جھوٹا واقعہ پیش آیا، ایک جنونی نے مقامی مسجد میں واقعہ کا اعلان کیا اور انتہا پسند اشتعال میں آئے، جڑانوالہ واقعے میں 25 چرچ اور 200 سے زائد گھروں کو جلایا گیا، مسیحیوں کے گھروں کو لوٹنے کے بعد تباہ کیا گیا۔
درخواست میں کہا گیا کہ واقعے پر جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل پاچکی مگر اس عمل میں کافی دیر لگ سکتی ہے، وقوعہ کے 2 ہفتوں بعد بھی کئی متاثرین بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، عدالت واقعے کی جوڈیشل تحقیقات کا حکم جاری کرے۔
درخواست میں مسیحی برادری کے تحفظ کے لیے تمام شریک ملزمان کو گرفتار کرنے، سی سی ٹی وی میں نظر آنے والے ملزمان کو دھمکیاں دینے سے روکنے کے لیے قانون کے مطابق کارروائی کرنے اور مسیحی برادری کے متاثرین کی نارمل زندگی میں بحالی کے لیے فوری انتظامی اور مالی معاونت کی بھی استدعا کی گئی ہے۔
واقعہ کب پیش آیا؟
یاد رہے کہ 16 اگست کو پنجاب کے شہر جڑانوالہ میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے الزامات کے بعد ہونے والے نقص امن کے واقعات پر دہشت گردی اور جلاؤ گھیراؤ کی دفعات کے تحت 5 مقدمات درج کیے گئے تھے جبکہ مساجد سے اعلانات کرکے عوام کو اقلیتی عبادت گاہوں پر حملہ کرنے کے لیے اشتعال دلانے والے ملزم سمیت 128 ملزمان کو بھی گرفتار کرلیا گیا تھا۔
جس کے بعد 18 اگست کو سپریم کورٹ میں جڑانوالہ واقعے پر نوٹس کے لیے متفرق درخواست دائر کی گئی تھی۔
درخواست میں عدالت عظمیٰ سے جڑانوالہ واقعے پر نوٹس لینے کی استدعا کی گئی تھی۔
اقلیتی رہنما سیمیول پیارے کی جانب سے دائر کردہ درخواست میں کہا گیا ہے کہ جڑانوالہ میں 16 اگست کو مذہبی اوراق سمیت چرچ جلائے گئے، سپریم کورٹ جڑانوالہ واقعے پر نوٹس لے۔
واضح رہے کہ متفرق درخواست سپریم کورٹ میں اقلیتوں کے حقوق سے متعلق کیس میں جمع کرائی گئی تھی۔