دنیا کی طرح خیبرپختونخوا بھی موسمیاتی تبدیلی کا شکار ہے، کلائمیٹ چینج کے اثرات موسم میں شدت لانے لگے ہیں، جو موسم گرما میں درجہ حرارت کے انتہا تک جانے یا پھر چند گھنٹوں کی بارش سے شہر کے پانی پانی ہوجانے کی صورت میں دکھائی دیتے ہیں۔
کلائمیٹ چینج کے ماہر اور چئیرمین جغرافیہ ڈپارٹمنٹ جامعہ پشاور ڈاکٹر عطاء الرحمان نے بتایا کہ زرعی اراضی پر ہاؤسنگ سوسائٹیز بنانے سے پشاور شہر میں سالانہ 3 فٹ زیر زمین پانی کی سطح کم ہورہی ہے۔
آج ڈیجیٹل سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ کلائمیٹ چینج سنگین مسئلہ ہے لیکن حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی، ابھی تک کلائمیٹ چینج کی منسٹری ہی نہیں۔
ڈاکٹر عطاء الرحمان کا کہنا تھا کہ صوبے میں کلائمیٹ چینج پر مختلف محکمے جیسے کہ ایریگشن ڈپارٹمنٹ، محکمہ زراعت، انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی، پروونشل ڈیزاسٹر منجمنٹ اتھارٹی اور دیگر کام کر تو رہے ہیں، لیکن کوآرڈینیشن کے فقدان کے باعث کئی مسائل موثر انداز میں حل نہی ہو پا رہے، جبکہ وسائل کی بھی اوورلیپنگ ہورہی ہے۔
ڈاکٹر عطاء الرحمان نے کہا کہ پانی صاف ہو یا بارانی، ہر جگہ اس کا بے دریغ استعمال جاری ہے، جنگلات کی کٹائی اور زرعی اراضی بھی ختم ہورہی، جس سے آنے والے چند سالوں میں مسائل سنگین نوعیت اختیار کرجائیں گے۔
ان کے مطابق اس کے لیے ضروری ہے کہ ہاوسنگ سوسائٹیز کے لیے صوبائی حکومت فوری لینڈ ریگولیشن بنانے کے ساتھ ساتھ نالوں کے اوپر قائم تجاوزات کو ہٹائے اور یہ مزید نہ بننے دیے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ تھوڑی دیر کی بارش سے پیدا ہونے والی سیلابی صورتحال سے بچنے کے لیے چھوٹے چھوٹے ڈیمز کی تعمیر کی جائے، جس سے بارشوں کے پانی کو بھی محفوظ کیا جاسکتا ہے اور زیر زمین پانی کی سطح کو بھی کم ہونے سے روکا جاسکتا ہے۔
اسی معاملے پر جب آج ڈیجیٹل نے انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل محمد انور خان سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلی کے مختلف اثرات ہیں، جس کا سامنا ملک بھر سمیت خیبرپختونخوا کو ہے، اسی لیے پانی کے بچاؤ کے لیے سروس اسٹیشنز پر میٹر نصب کرنے کا پلان تیار ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہاؤسنگ سوسائٹیز کو باؤنڈ کیا جارہا ہے کہ رزعی زمین پر سوسائٹی نہیں بنائی جائے۔
ان کے مطابق این او سی تب ہی جاری کرتے ہیں جب ہم زمین کو وزٹ کرکے دیکھ لیں اور این او سی جاری کرنے کے بعد بھی ہم انہیں کچھ گولز دیتے ہیں، جن کو پورا نہ کرنے کی صورت میں این او سی کینسل بھی کی جاسکتی ہے۔
ڈی جی ای پی اے نے بھی سنٹرلائزڈ اتھارٹی نہ ہونے کے باعث فیڈرل لیول پر کوآرڈینیشن کے فقدان کا شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ ہر ادارے میں کلائمیٹ چینج سیل ہونے چاہیے، تاکہ اس کی آگاہی اور افادیت دونوں سے ادارے آشنا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبے میں محکمہ فارسٹ انوارئمنٹ اینڈ وائلڈ لائف کو کلائمیٹ چینج ڈپارٹمنٹ میں تبدیل کیا ہے، اسی طرح صوبے میں پلاسٹک کی مینوفیکچرنگ پر مکمل پابندی عائد کی ہے، فیکٹریوں پر پلوشن (pollution) کنٹرول سسٹم نصب کیے اور نئے یونٹس بننے پر درخت لگانا لازمی قرار دیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اسپتالوں کے آلودہ پانی کے لیے ٹریٹمنٹ پلانٹس لگوائے ہیں، ہمیں اب موسمیاتی تبدیلیوں کے ساتھ چلنا ہوگا اس حوالے سے آگاہی اور behaviour change پر کام کرنا ہوگا۔