بھارتی خواتین نے مودی کی ’’سندور سیاست‘‘ کو ہندو خواتین کے جذبات سے کھیلنے کی شرمناک کوشش قرار دے دیا۔
بھارت میں وزیرِ اعظم نریندر مودی کی جانب سے مبینہ طور پر سندور بھیجنے کی سیاسی حکمتِ عملی پر شدید عوامی ردعمل سامنے آ رہا ہے۔
سوشل میڈیا سے لے کر عوامی حلقوں تک، کئی ہندو خواتین اور سماجی کارکنوں نے اس اقدام کو ”جذباتی استحصال“ اور ووٹ بینک حاصل کرنے کی ناکام کوشش قرار دیا ہے۔
بھارتی خواتین کا کہنا ہے کہ مودی مرنے والوں کے لواحقین سے ملنے کی بجائے گھر گھر سندور بھیج کر جھوٹی ہمدردی بٹور رہا ہے۔
ہندو خواتین نے مودی کی سندور سیاست کو بری طرح مسترد کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ میرا شوہر زندہ ہے، مودی کون ہوتا ہے مجھے سندور دینے والا؟، کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ کوئی ڈاکو (مودی) کسی کے گھر میں سندور لے کر آیا ہو؟۔
ایک اور بھارتی خاتون نے کہا مجھے شرم آتی ہے کہ ہمارے ملک کا وزیرِ اعظم اتنی گری ہوئی باتیں کر رہا ہے، اگر مودی سندور لے کر آئیں گے تو ہم اسکا کیا کریں گے، یہ پھر میں مودی کو بتاؤں گی۔
بھارتی خاتون نے کہا کہ میں ہندو ہوں مگر مودی کی حرکتوں پر شرم آتی ہے, اُسے خود سمجھ نہیں، ہمیں کیا سمجھائے گا ؟۔
مہشور سوشل میڈیا انفلوئنسر نیہا سنگھ راٹھور نے کہا کہ ہندو مذہب میں صرف اپنے پتی کا دیا ہوا سندور ہی لگایا جاتا کسی پرائے مرد کا نہیں، بہار سے کروڑوں لوگ روزگار کے لیے باہر جاتے ہیں اور ان کی بیویاں شوہر کے نام کا سندور لگاتی ہیں۔
انھوں نے الزام عائد کیا کہ مودی ووٹ بینک حاصل کرنے کے لیے بہار کی خواتین کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں، مودی سرکار یہ سوال دبانا چاہتی ہے کہ بہار کے لوگ بے روزگار کیوں ہیں اور سندوری لال خواتین کو صرف سندور میں الجھانا چاہتی ہے۔
ایک اور بھارتی خاتون نے کہا کہ مودی جی کے بھیجے گئے سندور پر پہلا حق اُن کی اپنی بیوی کا بنتا ہے، جب مودی اپنی بیوی کو ہی سندور نہیں دے سکتے تو ملک بھر کی خواتین کا انکے بھیجے سندور پر کیا حق بنتا ہے؟۔
سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتی عوام نے مودی کی خونی سیاست کو مسترد کر دیا ہے، اب عوام مزید کسی دھوکے میں آنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔